۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
ذاکر حسین میر

حوزہ / اسلامی تمدن سازی کے سفر میں غدیر کا  تاریخ ساز واقعہ ایک اہم موڑ ہے۔ پیغمبراکرم ﷺ کا اس دشت سوزاں میں مسلمانوں کو جمع کرنا ، ایک طویل خطبہ دینا، مسلمانوں سے اللہ کی وحدانیت اور اپنی رسالت کا اقرار لینا اور پھر مولائے کائنات کی ولایت و امامت کا اعلان کرنا  حقیقت میں مسلمانوں کی توجہ کو ایک اہم اور غیر معمولی مسئلہ کی جانب مبذول کرنا تھا۔

حوزہ نیوز ایجنسی | اسلامی تمدن سازی  کے سفر میں غدیرکا  تاریخ ساز واقعہ ایک اہم موڑ ہے۔ پیغمبراکرم ﷺ کا اس دشت سوزاں میں مسلمانوں کو جمع کرنا ، ایک طویل خطبہ دینا، مسلمانوں سے اللہ کی وحدانیت  اور اپنی رسالت کا اقرار لینا اور پھر مولائے کائنات کی ولایت و امامت کا اعلان کرنا  حقیقت میں مسلمانوں کی توجہ  کو ایک اہم اور غیر معمولی مسئلہ کی جانب مبذول کرنا تھا۔

قوموں کے عروج و زوال میں رہبران کا کردار کسی دلیل کا محتاج نہیں ۔ اسلامی تمدن سازی کے سلسلہ کو آگے بڑھانے کےلئے ناگزیرتھا کہ خاتم النبین حضرت محمد ﷺ اپنے بعد اس الہی مشن کو کسی ایسی ہستی کو سونپ دے جو گفتار وکردار ، علم ، امانت داری، فہم و فراست ، بصیرت ، شجاعت ، ہوشیاری ، رہبری اور دوراندیشی میں خود انہی کی طرح ہو۔ یہی وجہ تھی کہ خدا وند متعال نے آیہ بلغ کے ذریعے رسول اکرم ﷺ حکم دیا کہ اس اہم ذمہ داری کو انجام دیں:((یَااٴَیّهُا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتهُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لاَیهدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ ؛ اے پیغمبر ! آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے، اور اگر یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا ")) ۔ (مائدہ/67)۔پیغمبر اکرم ﷺ نے بھی دستور کے مطابق اپنی ذمہ داری کو انجام دیا اور اٹھارہ ذی الحجہ کو غدیر کے مقام پر حضرت علی ؑ کی ولایت و امامت کا اعلان فرمایا۔ تب سے غدیر تاریخ اسلام کے اہم ترین دنوں میں ایک دن کے طور پر اسلامی کلینڈر میں ثبت ہوا  اور  مسلمان اس دن کو عید کے طور پر مناتے ہیں۔ دینی تمدن سازی کےلئے اسلام کے اہم تاریخی ایام، مراسم، عبادات  اور اجتماعات  کا منانا اور انہیں زندہ رکھنا انتہائی ضروری ہے؛عید الفطر ہو یا عید الاضحی، عید میلادالنبی ہو یا تیرہ رجب ، عید غدیر ہو یا عید مباہلہ، اسی  طرح جمعہ کا مبارک دن ہو یا عرفہ کا عظیم دن ، حج کے پرشکوہ مراسم ہوں یا عزاداری کے عالمگیر مراسم، ان میں سے ہر ایک کا دینی تمدن سازی میں اپنااپنا حصہ ہے ،جسےکسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ 

آیت اللہ خامنہ ای  حج کے پرشکو ہ مراسم کو اسلامی اقدار کو احیاء کرنے کا اہم ترین ذریعہ سمجھتے ہیں : ((حج ایک خاص فریضہ ہے ۔ تمام اسلامی اقدار حج کے اعمال میں اس طرح جمع ہیں جوکہیں اورنظر نہیں آتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ حج اسلامی معاشرے کا ایک چھوٹا لیکن برتر نمونہ ہے؛ یہی وہ نمونہ ہے جسے ہم اسلامی تمد ن میں دیکھنا چاہتے ہیں اورایک  ایساہی معاشرہ دنیا کو دینا چاہتے ہیں۔ نیو اسلامک سویلائزیشن میں ، معنویت مادی ترقی کے ساتھ ساتھ ہے ؛ اخلاقی اور معنوی عروج ، خضوع و خشوع اور راز و نیاز  دنیوی ترقی سے جدا نہیں  ہیں؛ حج ایسی تمدن کا مظہر ہے))۔ یقینا حج کےاعمال ، مراسم اور واجبات میں ایک ایسے معاشرے کے قیام کے راہنما اصول ہیں جہاں امن و سلامتی، شعور و بیداری، دوسروں کا احترام ، تمام مخلوقات کے حقوق کا خیال  رکھنے، برابری، مساوات ، فداکاری، اللہ کے ساتھ راز و نیاز کے طور طریقے ، دنیا و فافیہا سے بے نیازی اور اللہ کے راستے  میں قربانی دینے کا جذبہ وغیرہ دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ اگرمسلمان انہی اصولوں کو اپنے معاشروں میں اپنانے کے پابند ہوں تو ان کا معاشرہ پوری دنیا کے لئے نمونہ عمل قرار پائے گا۔ 

آیت اللہ خامنہ ای اربعین کے عظیم اجتماع سے بھی اسلامی تمدن سازی کے لئے مدد لینے کی ضرورت پرزور دیتے ہیں: ((ان مراسم (اربعین مارچ)کو جتنا ہو سکے پرشکوہ تر اور معنوی تر بنانے کی کوشش کریں، ان مراسم کی معنویت اور پیغام کو دن بہ دن بڑھائیں ؛ اہل فکر ، اہل فرہنگ اور اہل بینش و فرہنگ بیٹھے اور اس عظیم مارچ کے لئے منصوبہ بندی کر یں ۔ آج کے ہر مسلمان کا اصلی ہدف نیو اسلامک سویلائزیشن ہونا چاہیے؛آج کے زمانے  میں ہماری خواہش یہی ہے۔ امت اسلامی کے پاس بڑے بڑے مواقع ہیں ان مواقع سے خوب استفادہ کر لیں ، اگر ایسا ہوتا ہے تو امت اسلامی عظمت اور عزت کی بلندیوں کو چھوئے گی ؛ ہمیں چاہیے اس بارے میں فکر کریں ؛ نیواسلامک سویلائزیشن کا قیام ، ہمارا آخری ہدف ہے))۔ 

دینی تمدن سازی میں مسجد کے رول کو بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: ((مسجد دفاعی قلعہ بھی ہے اور ہدایت ، کلچر، بصیرت ،سیاست اور بینش کو عام کرنے کا مرکز بھی۔ مسجد صرف کچھ خاص اجتماعی مسائل کو حل کرنےکا مرکز نہیں بلکہ یہ تمام نیک کاموں کے لئے مرکز بن سکتی ہے؛ خود سازی کا مرکز، انسان سازی کا مرکز، دنیا کو بنانے کا مرکز ، دین کو بنانے کامرکز،  دشمن کے ساتھ برسرپیکار ہونے کا مرکز اور اسلامی تمدن سازی کا مرکز بن سکتی ہے،یہ مسجد یہی ہے جو لوگوں کو بصیرت، دانش اور درست سمت کی طرف راہنمائی کرتی ہے جس سے انسان کامیابی کے مراحل طے کرتاہے))۔ عام طور پر ہم مسجد کو نماز اور عزاداری کی حد تک محدود رکھتے ہیں جبکہ دینی رہبران اسے تمام نیک کاموں کا مرکز سمجھتے ہیں ۔ مسجد کے حوالے سے یہی چیز صدر اسلام م میں بھی دیکھنے کوملتی ہے جب پیغمبر اکرم ﷺ مسلمانوں کے تمام معاملات کومسجد ہی سے ڈیل کرتے ہیں۔  

قرآن کریم نے دینی شعائر کا احترام اور انہیں زندہ رکھنے کو تقوی  کی علامت قرار دیا ہے: ((وَ مَنْ يُعَظِّمْ شَعائِرَ اللَّهِ فَإِنَّها مِنْ تَقْوَي الْقُلُوبِ؛ جو کوئی اللہ کی نشانیوں کا احترام کرے گا تو یقینا یہ پرہیز گاری کی علامت ہے۔))(حج/32)۔اس آیت کی رو سے شعائراللہ کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا اہل ایمان کی ذمہ داری ہے۔ اس لئے کہ یہ شعائراللہ ہی ہیں جو عبادات، اجتماعات، مقدس اماکن اور مراسم کی شکل میں دینی تمدن کو پھیلاتے بھی ہیں اورانہیں زندہ بھی رکھتے ہیں۔ البتہ مراسم کا ہونا ہی کافی نہیں بلکہ ان کا بڑے پیمانے پر منعقد کرنا، ان کے ذریعے اسلام کے آفاقی پیغام کو پہنچانا، ان کا لوگوں کی فردی اور اجتماعی زندگی پر اثرانداز ہونا، امت اسلامی کی درست سمت راہنمائی کرنا   اور مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنا وغیرہ حائز اہمیت ہیں۔ 
احادیث میں عید غدیر کو "عیداللہ اکبر "،"عید اہل بیت محمد ﷺ"اور "اشرف الاعیاد" سے یا دکیا گیا ہے۔ پیغمبر اکرم ﷺ سے منقول حدیث میں آیا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:  "عید غدیر میری امت کی بہترین عیدوں میں سے ہے اور وہ دن ہے جب خداوند متعال نے مجھے حکم دیا کہ میرے بھائی علی ابن ابیطالبؑ کو میری امت کے پرچمدار کے طور پر منتخب کروں ، تاکہ میرے بعدان کے ذریعے میری امت کی راہنمائی ہو اور وہ ایسا دن ہے جب خداوند متعال نے دین کو مکمل کیا اور میری امت پر نعمتیں  پوری کر دی  اور اسلام کو دین کے طور پر پسند کیا"۔ خداوند متعال نے بھی اس واقعہ کے فورا بعد آیہ تکمیل کو نازل کیا اور اسے کافروں کی مایوسی، دین کی تکمیل اور نعمتوں کے تمام ہونے کا سبب قرار دیا: ((الیَومَ یَئِسَ الَّذینَ کَفَروا مِن دینِکُم فَلا تَخشَوهُم وَ اخشَونِ اَلیَومَ اَکمَلتُ لَکُم دینَکُم وَ اَتمَمتُ عَلیکُم نِعمَتی وَ رَضیتُ لَکُمُ الاِسلامَ دیناً ؛ آج کافر تمہارے دین سے مایوس ہو چکے ہیں پس تم ان سے نہیں مجھ سے ڈرو، آج میں نے تمہارے لئے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر پسند کرلیا)) (مائدہ /3)۔ قرآن اور حدیث میں غدیر کے حوالے سے اس  بڑے اہتمام کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟  غدیر کے واقعہ میں کونسا راز مخفی ہے جو تکمیل دین،  نعمتوں کے پورا ہونےاور کافروں کی مایوسی کا سبب بنا؟ آیت اللہ خامنہ ای فرماتے ہیں : (( دین میں کس چیز کو اضافہ کیاگیا ہے جس سے کفار مایوس ہوئے ؟ وہ کونسی چیز ہے  جس کی اہمیت نماز، روزہ، زکات ، جہاد اور دیگر احکام سے بھی زیادہ ہے؟  یہ اہم مسئلہ امت اسلامی کی رہبری ہے ۔ غدیر کے دن ایک ضابطہ طے ہوا ؛ پیغمبر اکرم ﷺ نے اپنی عمر کے آخری ایام میں امت اسلامی کو ایک اصول اور قاعدہ عطاکیا اور وہ امامت اور ولایت ہے۔ یہ قاعدہ اسلام کا قاعدہ ہے ، قرآنی اصول ہے اور غدیر میں اس اصول  کو لوگوں تک پہنچایا گیا  اور ساتھ ہی اس کے مصداق کو بھی مشخص کیا گیا تاکہ مسلمان چاہے وہ دنیاکے جس کونے میں رہتے ہوں وہ  اس قاعدے سے راہنمائی حاصل کرلیں، اسلامی معاشرے کو تحقق بخشیں  اور امامت کے نظام کو زندہ رکھیں۔ غدیر کے دن معلوم ہوا کہ اسلام میں ملوکیت ، بادشاہت ، اشراف گری اور جابر و ظالم حکمرانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں؛  یہی وہ چیز ہے جس نے کافروں کو مایوس کردیا ))۔ اسلامی تمدن سازی کے سلسلہ کو آگے بڑھانے کے لئے عالم، مدبر، دور اندیش، تجربہ کار، دین شناس اوردنیا کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے رہبر اور امام کا ہونا ناگزیر ہے اور یہی وہ معیار اور ضابطہ ہے جو غدیر کے دن طے ہوا جس   سے دشمن کا مایوس ہونا یقینی امر تھا۔ غدیر کو زندہ رکھنا اور اس کو بڑے سطح پر منانا حقیقت میں اسلامی  تہذیب و تمدن کے اس اہم رکن کو زندہ رکھنا ہے جو امت اسلامی کی قیادت و رہبری کے لئے ضابطہ ، معیار اور میرٹ طے کرتاہے۔ 

نیو اسلامک سویلائزیشن کو وجود بخشنے میں جہاں بڑے بڑے اجتماعات، مخصوص ایام اور دینی مراسم  کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا  وہاں اسلامی  فرہنگ میں متداول اصطلاحات، القابات، نعروں ، عزت و تکریم کے طور طریقوں اور اظہار عقیدت کے الفاظ میں سہل انگاری سے کام لینا بھی جائز نہیں ۔ مسئلہ   یہ نہیں کہ "علیہ السلام" کی جگہ "رضی اللہ" کہنا درست  ہے یا نہیں ؟ بلکہ مسئلہ اقدار ، اصولوں اور دینی ثقافت کا تحفظ ہے۔ دینی تمدن میں استعمال ہونے والے الفاظ ہمارے بنیادی اعتقادات، تاریخی حقائق ، قرآنی اصول اور مکتب کے بنیادی ارکان میں سے کسی ایک کامظہر ہوتے ہیں۔ ہم اسی وقت تقوی اور پرہیزگاری کے مرتبہ پر فائز ہو سکتے ہیں جب ہم توحید، رسالت اور امامت کی تمام نشانیوں:حرمین شریفین ، مساجد، کربلا و نجف ،عید الفطر، عیدالاضحی ، عید میلاد النبی ، عید غدیر ، عید مباہلہ ، عاشورا ، عزاداری، اربعین، قرآن و اہل بیت وغیرہ وغیرہ  کا احترام کریں اور انہیں ان کی اپنی اصلی شکل میں باقی رکھیں۔

تحریر: ذاکر حسین میر حوزہ علمیہ مشہد مقدس 

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .